17 اپریل 2025 - 17:32
ٹرمپ نے للچایا مگر یمنی نہ مانے، ریاض-ابوظہبی سیخ پا ہوئے!، امریکی رسالے کا اظہار حیرت

امریکی رسالے نے لکھا: ٹرمپ نے یمنیوں سے کہا کہ بڑی اقتصادی رعایتیں لیں اور غزہ کی حمایت ختم کریں، لیکن یمنیوں نے کہا: بحیرہ احمر کا بحران صرف اس وقت ختم ہوگا جب غزہ پر مسلط کردہ جنگ ختم ہوجائے، غزہ کا محاصرہ اٹھایا جائے اور غزاویوں کو امداد کی ترسیل کے راستے مستقل طور پر کھول دیئے جائیں۔ / یمن کی طرف سے غزہ کی حمایت پر سعودی عرب اور امارات سیخ پا ہیں؛ انہوں نے غزہ کی مسلسل حمایت پر 2022 کی جنگ بندی کے سمجھوتے کو منسوخ کیا اور یمن پر مزید پابندیاں لگائیں!!

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کے مطابق، یمن پر امریکی جارحیت دوسرے مہینے میں داخل ہو گئی ہے لیکن امریکیوں کے کامیابی کے اثرات ہنوز ناپید ہیں۔ اور اسی اثناء میں ایک امریکی رسالے کریڈل (The Cradle) نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے صنعاء کو غزہ کی حمایت سے دستبردار ہونے کے عوض اقتصادی رعایتوں کی پیشکش کی ہے لیکن یمنی راہنماؤں نے اس پیشکش کو قطعی طور پر مسترد کر دیا ہے۔

ٹرمپ نے للچایا مگر یمنی نہ مانے، ریاض-ابوظہبی سیخ پا ہوئے؛ امریکی رسالے کا اظہار حیرت

کریڈل نے "کیا یمن اپنے میزائلوں کا رخ امارات اور سعودی عرب کی طرف کرنے والا ہے؟" کے عنوان سے اپنی مفصل رپورٹ میں لکھا ہے: یمن پر امریکی حملہ لاحاصل رہا ہے، واشنگٹن کو کوئی واضح کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے اور امریکہ ان حملوں کے حوالے سے کوئی ٹائم ٹیبل بھی پیش نہیں کر سکا ہے، جنگ میں دوسرے علاقائی فریقوں کی مداخلت کے امکانات میں شدید اضآفہ ہؤا ہے۔ سعودی عرب اور امارات اس جنگ میں پھسل جانے کے خطرے سے دوچار ہیں جو نہ تو اس جنگ کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں نہ ہی ان کی کامیابی کا کوئی امکان ہے۔

یمن کی جنگ غزہ کے بحران سے جڑی ہوئی ہے

کریڈل نے لکھا: بائیڈن انتظامیہ نے بظاہر یمن کی جنگ کو اسرائیل کی جنگ سے الگ رکھنے کی کوشش کی لیکن حقائق اس کے برعکس ہیں کیونکہ یمن کی فوجی کاروائیاں فلسطین پر اسرائیل کے حملے کے ساتھ ہی شروع ہوئیں اور حماس اور اسرائیل کے درمیان جنوری 2025ع‍ میں جنگ بندی ہوئی تو یمنیوں کے حملے بھی بند ہوئے۔ لیکن ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں واپس آئے اور تل ابیب نے معاہدے کو پامال کیا تو یہ حملے دوبارہ شروع ہوئے۔

ٹرمپ نے للچایا مگر یمنی نہ مانے، ریاض-ابوظہبی سیخ پا ہوئے؛ امریکی رسالے کا اظہار حیرت

کریڈل مزید لکھتا ہے: امریکہ یمنیوں کو اسرائیل سے متعلق بحری جہازوں پر حملے بند کرنے پر آمادہ کرنے میں ناکام رہا تو اس نے یمن اور سعودی عرب کے اقتصادی مذاکرات معطل کرانے اور اس اقدام سے دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ یہ امریکی اقدام فلسطینی مقاومت کے تئیں یمن کی حمایت کی سزا کا حصہ سمجھتا ہے۔

واشنگٹن نے یمن کو اقتصادی ترغیبات پر مشتمل ایک پیکج بھی پیش کیا اور کہا کہ یمن یہ پیکج لے کر جنگ سے الگ ہوجائے اور غزہ کے حوالے سے غیر جانبداری اختیار کرے۔ لیکن دوسرے عرب ممالک کے برعکس، ـ جنہوں نے اس قسم کی تجاویز قبول کر لیں ـ صنعاء نے اس گٹھ جوڑ کو مسترد کیا اور اعلان کیا کہ فلسطین کی حمایت ان کے ناقابل سمجھوتہ اصولوں میں سے ایک ہے۔

فلسطین کی حمایت جاری رہے گی خواہ اس سے یمن کو اقتصادی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے

کریڈل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے: یمن نے اپنے اس اصولی موقف پر جمے رہنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے، لیکن اس کے باوجود انصار اللہ کے راہنماؤں کو یقین ہے کہ "فلسطین ایک مرکزی قضیہ" ہے جس کی غیر مشروط حمایت کرنا لازمی ہے، خواہ یہ حمایت قلیل مدتی اقتصادی نقصانات کا باعث ہی کیوں نہ بنے۔

ٹرمپ نے للچایا مگر یمنی نہ مانے، ریاض-ابوظہبی سیخ پا ہوئے؛ امریکی رسالے کا اظہار حیرت

یمنیوں کا یہ موقف سعودیوں کے ساتھ اقتصادی مذاکرات کے منقطع ہونے کے علاوہ ریاض اور امارات سیخ پا اور بہت ناراض ہوئے ہیں اور ان دو عرب ملکوں نے یمن کے ساتھ اپریل 2022 کی اعلان کردہ جنگ بندی کے سمجھوتے کو منسوخ کرکے صنعاء پر مزید پابندیاں عائد ہیں!

اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کوئی مصالحت نہیں کریں گے، صنعاء

رپورٹ کے آخر میں زور دیا گیا ہے کہ یمن کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحالی کی مخالفت ایک عارضی حکمت عملی نہیں بلک انصاراللہ کی سیاسی شناخت کا جزو ہے۔ یہ جماعت امریکی اور صہیونی تسلط کی مخالفت کو اپنےنظریئے کا ستون سمجھتی ہے چنانچہ وہ ایسی کسی بھی سودے بازی یا تعاون کو قبول نہیں کرتی جو اس اصول حرف آنے کا سبب بنے۔

سعودیہ اور امارات کے برعکس ـ جو امریکی جُغ-سیاسی مدار میں گھومتے نظر آ رہے ہیں - اور ان کا موقف یمن کے موقف کے برعکس، فلسطین کے سلسلے میں اپنے اصولی موقف کو واشنگٹن کے ساتھ اپنے تزویراتی تعلقات پر قربان کر چکے ہیں۔

جنوری 2025ع‍ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ برسراقتدار آنے سے لے کر اب تک امریکہ نے انسانی بنیادوں پر یمن بھیجے جانے والی امداد میں بہت حد تک کمی کر دی ہے۔ 20 جنوری کو ٹرمپ نے آرڈر نمبر 14169 پر دستخط کر دیئے اور یوں انہوں نے امریکہ سے کسی بھی ملک کے لئے "بیرونی ترقی" کے عنوان امداد بھجوانے کے عمل کو 90 دن تک ملتوی کر دیا تاکہ اس عرصے میں امداد رسانی کی پالیسی پر جامع نظر ثانی کی جائے۔
 

ٹرمپ کا یہ اقدام امدادی پروگراموں کی وسیع پیمانے پر التوا کا باعث ہؤا؛ اس اقدام کے بعد یمن میں سرگرم متعدد غیر سرکاری امدادی تنظیموں کا بجٹ کم کیا گیا، ان تنظیموں نے اپنے منصوبوں پر عملدرآمد ملتوی کر دیا اور اپنے کارکنوں کو برخاست کر دیا۔ اور اس صورت حال سے کمزور طبقات پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔

ادھرعلاوہ ازیں، ٹرمپ نے ایک بار پھر انصار اللہ کو نام نہاد دہشت گرد گروپوں کی فہرست ميں قرار دیا ہے جس کی وجہ سے یو ایس ایڈ نے ان اداروں سے تعاون منقطع کیا جو یمن میں کام کر رہے ہیں۔

نتیجہ یہ ہؤا کہ غذائی قلت کا شکار یمنی بچوں کے لئے اشیائے خورد و نوش اور ادویات کی فراہمی میں خلل پڑا ہے۔

ٹرمپ کے اقدامات نے صرف یمن کو نقصان نہیں پہنچایا بلکہ وہ غریب ممالک جنہیں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ضروری ہے، وہ بھی متاثر ہوئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha